Jump to content

User:Hindustanilanguage/sandbox

From Meta, a Wikimedia project coordination wiki

عظیم مغلیہ سلطنت کا بانی ظہیرالدین بابر دنیا کا پہلا بادشاہ تھا جس نے روزنامچہ یعنی روز آنہ پیش آمدہ واقعات کی ڈائری باقاعدگی سے تحریر کی اور ہر اہم واقعے کو من و عن اور بے کم و کاست سپرد قلم کیا۔ بابر نامہ روایتی ترکی زبان میں 'تزکِ بابری‘ کے نام سے بابر کی روزمرہ کی تحریروں کا ایک منفرد مجموعہ ہے۔ اکبر اعظم کے زمانے میں اس کا فارسی میں ترجمہ ہوا۔ فارسی زبان کا طوطی اُس زمانے میں پورے ہندوستان کی جغرافی حدود سے لے کر ترکی تک بولتا تھا۔ اب اس کتاب کے متعدد تراجم انگریزی اور دیگر زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ برصغیر ہند و پاک کی تاریخ کے ہر طالب علم کے لیے بابر نامہ کا مطالعہ ضروری ہے۔ اس عظیم شخص کی زندگی جدوجہد سے عبارت ہے۔ وہ اچھا قائد اور فوجی حکمت عملی کا ماہر بھی تھا۔ وہ اچھا شاعر بھی تھا۔ ڈائری بڑے سلیس انداز میں تحریر کی گئی ہے۔ بابر نے اپنی فتوحات کے علاوہ متعدد شکستوں کا بھی صراحت سے ذکر کیا ہے۔ شراب نوشی کی محفلوں کو بھی بیان کیا ہے۔ بابر نامہ میں حقائق کا ذکر صراحت سے ہے۔ اس تاریخی دستاویز میں بابر ایک بادشاہ کے علاوہ انسان کے طور پر نمایاں ہے۔ بابر برلاس ترک تھا اور پانچویں پیڑھی پر اس کا شجرہ براہِ راست امیر تیمور سے مل جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ منگول اور مغل ایک دوسرے کے مترادف الفاظ ہیں۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ بابر ننہیال کی طرف سے منگول ہے۔ اس کی والدہ کا شجرۂ نسب مشہور فاتح چنگیز خان سے جا ملتا ہے۔ لہٰذا مغل خون بابر کو اپنی والدہ کی طرف سے ملا۔ لیکن مغلوں کے بارے میں بابر کے خیالات منفی رہے۔ بابر نامہ میں لکھتا ہے مغل فوج اکثر شرارت اور تباہی کی طرف راغب رہتی ہے‘‘۔ اسی طرح ازبک قوم بھی اس کی تنقید کا ہدف رہی اور شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ بابر کو شیبانی خان کے ہاتھوں شکست فاش ہوئی تھی۔ بابر کی والدہ قلتق نگار بیگم پڑھی لکھی خاتون تھیں۔ بابر کو ترکی، فارسی اور اسلامی علوم پر عبور حاصل تھا۔ تزک بابری میں وہ ایک اچھا جغرافیہ دان، مردم شناس، فطرتی حسن کا قدر دان، پھلوں، گھوڑوں اور نباتات سے خوب واقف، سماجی روایات سے آشنا لگتا ہے۔ بابر کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ وہ عیاش حکمران تھا اور یہ تاثر بابر کے اپنے ہی ایک مصرعہ ع بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘ کی بدولت پیدا ہوا۔ یہ تاثر بڑی حد تک غلط ہے۔ بابر گیارہ سال کا تھا کہ اُس کے والد عمر شیخ مرزا کا انتقال ہو گیا۔ کم عمری میں ہی بابر نے جنگیں لڑیں۔ سات ماہ کے محاصرے کے بعد سمرقند فتح کیا‘ لیکن سمر قند پر بابر کی حکومت زیادہ دیر نہ چل سکی۔ اس کے حریفوں نے اس کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھا کر اندی جان پر قبضہ کر لیا۔ بابر کی والدہ نے اُسے واپس بلایا۔ سمر قند سے نکلا تو اس عظیم شہر پر دشمن کا پھر قبضہ ہو گیا۔ اندیجان بابر کی جائے پیدائش ہے۔ میں نے وادیٔ فرغانہ میں واقع یہ تاریخی شہر دیکھا ہے۔ میں وہاں 1996ء میں ازبکستان میں پاکستان کے سفیر شفقت علی شیخ صاحب کے ہمراہ گیا تھا۔ اُس زمانے میں‘ میں ہمسایہ ملک تاجکستان میں سفیر تھا۔ اندی جان میں ہماری ملاقات ایک بہت ہی نابغۂ روزگار شخصیت سے ہوئی۔ ذاکر آقا بابر کے عاشق نکلے۔ انہوں نے اندی جان میں کابل کی طرز کا باغِ بابر بنایا ہوا ہے۔ اس وسیع و عریض باغ میں بابر کی فرضی قبر بھی بنائی گئی ہے۔ اس فرضی قبر کے لیے ذاکر آقا کابل سے اصلی قبر کے ارد گرد سے مٹی لے کر آئے۔ اسی طرح وہ متعدد بار پاکستان اور انڈیا بھی گئے۔ ہر اُس جگہ سے مٹی لائے جہاں بابر نے جنگ لڑی یا قیام کیا۔ جب میری اُن سے ملاقات ہوئی تب تک ذاکر آقا سترہ مرتبہ انڈیا، پاکستان اور افغانستان جا چکے تھے۔ سمر قند بابر کا پسندیدہ شہر تھا۔ وہ بابر نامہ میں لکھتا ہے کہ ایسے پُر لطف شہر دنیا میں بہت کم ہیں۔ سمر قند کو بلدۃ المحفوظ یعنی سیف سٹی بھی کہا جاتا تھا۔ بابر کو سمر قند کے نان، سیب اور انگور بہت پسند تھے۔ ایک اور چیز اس شہر کی جس نے بابر کو متاثر کیا‘ یہ تھی کہ مختلف بازار مختلف اشیاء کے لیے مختص تھے۔ شہر کے گرد فصیل تھی۔ بقول بابر سمر قند مخمل کے لیے مشہور تھا اور دنیا کا بہترین کاغذ وہاں بنتا تھا۔ سمر قند سے بابر کی محبت کی ایک اضافی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ شہر امیر تیمور کا دارالحکومت رہا اور اس عظیم فاتح کا مرقد بھی اسی شہر میں ہے۔ بابر نامہ پڑھیں تو مصنف کی ایمان داری اور صراحت عیاں ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ کابل کی فتح کے بعد بابر اپنے ظلم اور قتل عام کا ایسے ذکر کرتا ہے کہ جیسے معمول کی بات ہو۔ آئیے یہ قصہ بابر کے اپنے الفاظ میں پڑھتے ہیں جب ہم نے محاصرہ کر کے ہر طرف سے حملہ کیا تو افغان لڑ نہ سکے۔ ایک سے دو سو افغان پکڑ لئے گئے اور پھر انہیں قتل کر دیا گیا۔ کچھ ہمارے سامنے زندہ لائے گئے اور چند ایک کے سر ہمارے حضور پیش کئے گئے۔ قتل شدہ افغانوں کے سروں سے ہمارے کیمپ میں ایک ستون بنایا گیا۔ یاد رہے کہ مفتوح فوج کے سروں سے ستون بنانے کی روایت بابر کے جد امجد امیر تیمور کے وقت سے چلی آ رہی تھی۔ کابل کے بعد بابر نے باجوڑ فتح کیا اور یہاں تین ہزار لوگ قتل ہوئے۔ اس عمل سے لگتا ہے کہ بابر بہت ظالم شخص تھا‘ لیکن دراصل ایسا نہیں تھا۔ اس زمانے میں جنگ کے بعد مفتوح لوگوں پر دھاک بٹھانے کے لیے قتل عام ضروری سمجھا جاتا تھا۔ امیر تیمور اور نادر شاہ نے دہلی کو فتح کرنے کے بعد قتل عام کیا اور 1857 میں دہلی میں انگریزوں کے ظلم و ستم سب کو یاد ہیں۔ لیکن ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ آخری مغل بادشاہ کو اُس کے بیٹوں کے سر طشت پر رکھ کر پیش کئے گئے۔ 'تلک الایام نداولہا بین الناس‘ والی آیت یاد آ رہی ہے کہ ہم وقت کو لوگوں میں گھماتے رہتے ہیں‘ یعنی کبھی عروج کبھی زوال۔ بابر کی پہلی شادی سترہ سال کی عمر میں عائشہ سلطان بیگم سے ہوئی۔ شادی کامیاب رہی لیکن اتنی زیادہ نہیں۔ بابر لکھتا ہے کہ اس کے اور اس کی بیگم کے درمیان شرم و حیا کا ایک پردہ حائل رہا‘ اور پندرہ روز بعد ایک دوسرے کو ملتے تھے۔ بابر سچ بولنے سے قطعاً نہیں گھبراتا تھا۔ شادی کے بعد بابر کو ایک لڑکے سے عشق ہو گیا اس کا نام بابری تھا۔ میرا خیال ہے کہ یہ نام اصلی نہیں کیونکہ اصلی نام لکھنے سے محبوب کی دل آزاری ہو سکتی تھی۔ بابر نے اپنے محبوب کے لیے فارسی میں شعر کہے جو بابر نامہ میں درج ہیں۔ بابر اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ وہ اپنے معشوق کے چہرے پر نظریں نہیں جما سکتا تھا۔ جب کبھی یہ لڑکا بابر کے سامنے آتا تو بادشاہ کو گفتگو کے لیے الفاظ نہ ملتے‘ بقول فیض کہنے کو اُن کے سامنے بات بدل بدل جاتی تھی۔ ایک روز بابر اپنے مصاحبوں کے ساتھ ایک کوچے سے گزر رہا تھا کہ وہ لڑکا اچانک سامنے آ گیا۔ بابر اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ وہ بے حد کنفیوژ ہو گیا۔ بقول مصنف اسے دیکھنا اور اس سے بات کرنا دونوں میں بے حد دشواری تھی۔ وہ اس بات کا بھی برملا اظہار کرتا ہے کہ اس عشق میں وہ متعدد بار برہنہ سر اور ننگے پائوں پھرتا رہا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بابر ہم جنس پرست تھا۔ شاید یہ بات کسی حد تک صحیح ہو کیونکہ بابر کی شادی ہو چکی تھی‘ مگر بیوی سے قربت اور محبت کا رشتہ استوار نہیں ہو سکا تھا۔ میرا اپنا خیال ہے کہ بابر کا یہ عشق بڑی حد تک افلاطونی تھا۔ مشرقی سوسائٹی میں اور خاص طور مسلم معاشروں میں لواطت یعنی ہم جنس پرستی کو بہت قبیح فعل تصور کیا جاتا ہے‘ اس لیے جو لوگ اس فعل کا ارتکاب کرتے ہیں وہ اس بات کو پوشیدہ رکھتے ہیں۔ بابر کا کھل کر یہ قصہ بیان کرنا اس کی معصومیت کی دلیل ہے۔ ایک جگہ بابر اپنے پہلے اتالیق شیخ مجید بیگ کا ذکر بڑے اچھے الفاظ سے شروع کرتا ہے۔ شیخ مجید بیگ کو بابر کے والد کے دربار میں اعلیٰ مقام حاصل تھا۔ تعریفی الفاظ کے بعد بابر لکھتا ہے کہ اس شخص میں لواطت والی شیطانی عادت مگر تھی۔ ا گر بابر خود ہم جنس پرست ہوتا تو وہ اس فعل کو شیطان سے تشبیہہ نہ دیتا۔

بابر جیسی ہفت پہلو شخصیت کے بیان کے لیے کئی کالم بھی کافی نہیں‘ لیکن کچھ اور موضوعات بھی ذہن میں گردش کر رہے ہیں‘ لہٰذا آج اس عظیم شخص کا بیان ختم کرتے ہیں۔ جب عمر شیخ مرزا کا اچانک انتقال ہوا تو بابر کی عمر گیارہ سال تھی۔ سینتالیس سال کی عمر میں مغلیہ سلطنت کے بانی کا انتقال ہوا۔ 36 سالہ عملی زندگی میں بابر نے تقریباً تیس جنگیں لڑیں‘ جن میں سے چند خاصی طویل تھیں۔ اس کی زندگی مسلسل جدوجہد سے عبارت تھی۔ لیکن جب بھی اسے جنگوں سے فراغت ہوئی اس نے زندگی کو خوب انجوائے کیا۔ بابر نامہ میں دریائے کابل‘ دریائے سندھ اور دریائے جہلم میں کشتی رانی کا ذکر ہے۔ رقص و سرود کی محفلیں بھی مذکور ہیں۔ اکثر سمجھا جاتا ہے کہ جو شخص شمشیر و سناں کا ماہر ہو گا‘ وہ طائوس و رباب کی طرف راغب نہیں ہو گا‘ لیکن بابر میں یہ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں‘ گویا بڑی متوازن شخصیت ہے۔ کابل بابر کے چچا الغ بیگ مرزا کے زیر تسلط تھا۔ الغ بیگ کی وفات کے بعد محلائی سازشیں شروع ہو گئیں اور ایک وزیر شیرم ذکر Sherim Zikr نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ بابر حصار کے راستے کابل کی طرف بڑھا۔ حصار کا تاریخی قبضہ آج بھی تاجکستان میں آباد ہے۔ بابر لکھتا ہے کہ حصار سے نکلے تو اس کے ساتھ چند سو سپاہی تھے اور بیشتر کے پائوں میں جوتے بھی نہ تھے۔ راستے میں مزید سپاہی اور سامانِ حرب ملتا گیا۔ 1504 میں بابر نے کابل فتح کیا۔ یہاں کا موسم اور انگور بابر کو بہت اچھے لگے۔ وہ لکھتا ہے کہ گرمیوں کی راتوں میں بھی کابل میں سوتے وقت بھیڑ کی کھال سے بنا ہوا کوٹ پہنتے ہیں‘ ورنہ سردی لگتی ہے۔ بابر کو مختلف پودوں کا عام طور پر اور پھل دار درختوں سے بڑا شغف تھا۔ اس نے سنٹرل ایشیا سے آلو بخارے کی قلمیں لا کر افغانستان میں لگائیں‘ جو کامیابی سے چلیں۔ بابر کو کابل کا بیدانہ انگور بہت بھایا۔ کابل کی وائین یعنی نبیذ کا ذکر کرتے ہوئے بابر لکھتا ہے کہ یہ بہت نشہ آور ہے۔ بابر کو کابل کا موسم سرما اچھا لگا کیونکہ یہاں سنٹرل ایشیا سے کم سردی پڑتی ہے۔ کابل میں مختلف ممالک سے لایا ہوا انواع و اقسام کا مال بکتا تھا۔ شہر میں بارہ زبانیں بولی جاتی تھیں۔ کابل پر حملے سے چند ماہ پہلے بابر نے زندگی میں پہلی مرتبہ حجام سے شیو بنوائی۔ میرے زیر مطالعہ بابر نامے کا مولف دلیپ ہیرو لکھتا ہے کہ اکیس سال عمر میں بابر نے زندگی کا اتنا تجربہ حاصل کر لیا تھا جو عام لوگوں کو پچاس سال میں بھی نہیں ملتا۔ فتح کابل کے بعد بابر نے چار شادیاں کیں۔ اس کی بیویوں کے نام تھے: ماہم بیگم، معصومہ سلطان بیگم، گل رخ بیگم اور دلدار بیگم۔ ہندوستان کا اگلا بادشاہ یعنی ہمایوں ماہم بیگم کا بیٹا تھا۔ دلیپ ہیرو یہ بھی لکھتا ہے کہ بابر کا بس چلتا تو وہ اپنی سلطنت کا نام خاندان تیموریہ رکھتا کیونکہ وہ نسلاً مغل نہیں تھا اور نسل باپ سے چلتی ہے۔ 1523ء میں بابر نے لاہور فتح کیا اور پھر دیپالپور۔ حملے کی دعوت اسے پنجاب کے صوبیدار دولت خان لودھی نے دی تھی جو ابراہیم لودھی سے تنگ آیا ہوا تھا۔ دولت خان کی خام خیالی تھی کہ بابر پنجاب کو اپنی سلطنت میں شامل کر کے اُس کے حوالے کر دے گا اور خود کابل واپس چلا جائے گا۔ اس سے پہلے بابر کو میوار کے حاکم رانا سانگھا نے پیغامات بھیجے تھے کہ وہ ہندوستان پر حملہ کرے۔ رانا سانگھا کا پلان تھا کہ بابر پہلے حملہ آوروں کی طرح دہلی فتح کر کے واپس چلا جائے گا۔ رانا سانگھا نے بابر کو پوری امداد کا بھی یقین دلایا تھا۔ پلان یہ بنا کہ جونہی بابر دہلی پر قبضہ کرے گا رانا سانگھا آگرہ پر حملہ آور ہو جائے گا۔ رانا سانگھا نے وعدے کی پاسداری نہیں کی‘ اور اس وجہ سے بابر اُس سے سخت ناراض تھا۔ بابر نے انڈیا میں رہ کر حکومت کرنے کا فیصلہ کیا اور اس طرح دولت خان لودھی اور رانا سانگھا دونوں کے لاہور اور دہلی کے تخت پر بیٹھنے کے خواب چکنا چور ہو گئے۔ رانا سانگھا کی راجستھان کے علاقے میوار پر حکومت تھی۔ مشرقی انڈیا میں اب بھی افغان حکمران تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے عزیز ابراہیم لودھی کو بابر نے پانی پت میں شکست دی تھی۔ رانا سانگھا نے افغانوں کو ساتھ ملا کر بہت بڑی فوج تیار کر لی۔ بابر کے بقول رانا سانگھا کی فوج دو لاکھ تھی لیکن مورخین لکھتے ہیں کہ یہ فوج پچاس ہزار تھی۔ بہر حال بابر کی فوج مقابلتاً بہت کم تھی۔ اب اس عظیم جرنیل نے سوچا کہ اپنے سپاہیوں کا عزم اور حوصلہ بلند کرنا چاہئے۔ اُس نے فوج کو جمع کرنے کا حکم دیا۔ شراب کی بوتلیں اور جام منگوائے۔ سپاہیوں کے سامنے اعلان کیا کہ میں آج سے شراب نوشی ترک کر رہا ہوں۔ بوتلیں اور جام توڑ دیئے گئے۔ تمام سپاہیوں نے عزم کیا کہ وہ کنواحہ کی جنگ میں یا غازی ہوں گے یا شہید۔ بابر کی فوج اس قدر پُرجوش تھی کہ عددی برتری کے باوجود رانا سانگھا کو شکست ہوئی۔ یہ جنگ مارچ 1527ء میں ہوئی۔ جب انڈیا میں مغلیہ حکومت قائم ہوئی تو بابر کی عمر تقریباً چالیس سال تھی۔ وہ اب بھی دو آدمیوں کو دونوں جانب اٹھا کر قلعے کی دیوار پر تیز تیز چلتا تھا۔ ایسا طاقت ور ذہین و فطین شخص ہی اتنی بڑی سلطنت کی بنیاد رکھ سکتا تھا۔ انڈیا کی اچھائیوں کے بارے میں بابر لکھتا ہے کہ یہ وسیع و عریض ملک ہے‘ مال و دولت کی فراوانی ہے۔ برسات کے موسم میں دن میں کئی مرتبہ بارش ہوتی ہے۔ خشک دریا بھر جاتے ہیں۔ یہاں گرمی بلخ اور قندھار کے مقابلے میں کم ہے؛ البتہ گرمیوں میں آندھیاں بہت چلتی ہیں۔ ہندوستان کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں ہر قسم کے کاریگر بڑی تعداد میں ملتے ہیں۔ ایک ذات کے لوگ ایک ہی کام کرتے ہیں اور بیٹا وہی پیشہ اختیار کرتا ہے جو اُس کے باپ کا تھا۔ بابر نے مختلف علاقوں سے مالیہ کی وصولی کو تفصیل سے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے۔ پورے ہندوستان میں سب سے زیادہ مالیہ لاہور، دہلی اور بہار کے صوبوں سے آتا تھا۔ لاہور کا صوبہ دریائے ستلج سے لے کر دریائے چناب تک تھا۔ بھیرہ اُس زمانے میں بڑا خوش حال شہر تھا؛ البتہ بابر کو انڈیا میں خامیاں زیادہ نظر آئیں۔ وہ لکھتا ہے یہاں کے لوگ خوش شکل نہیں اور نہ ہی انہیں ملنے ملانے کے آداب سے آشنائی ہے۔ دست کاری اور صنعت میں تناسب نہیں۔ یہاں نہ ہی اچھے گھوڑے ملتے ہیں اور نہ کتے۔ یہاں کے فروٹ بشمول خربوزہ اور انگور عام سے ہیں۔ بازاروں میں اچھا پکا ہوا کھانا اور عمدہ نان نہیں ملتے۔ یہاں نہ ہی حمام ہیں اور نہ کالج۔ مشعلیں‘ شمع دان اور موم بتیاں ناپید ہیں۔ موم بتی کے بجائے یہ لوگ عام مٹی کا بنا ہوا دیا استعمال کرتے ہیں‘ جس میں تیل ڈال دیا جاتا ہے اور موٹی سی روئی کی بتی۔ روشنی کرنے کا یہ خاصا گندا اور بھونڈا طریقہ ہے۔ دریائوں اور آبی نالوں کے علاوہ یہاں پانی نظر نہیں آتا۔ عام کسان اور ادنیٰ طبقے کے لوگ تقریباً برہنہ پھرتے ہیں۔ کئی لوگ صرف لنگوٹ پہنتے ہیں۔ کچھ لوگ کمر کے گرد ایک کپڑا باندھ لیتے ہیں‘ جسے لنگی یا دھوتی کہا جاتا ہے۔ عورتیں اپنے بدن کے گرد کپڑا لپیٹتی ہیں جسے ساڑھی بولتے ہیں‘‘۔ بابر کی زندگی عمل یعنی ایکشن سے بھرپور نظر آتی ہے۔ اُس میں بے شمار جنگیں ہیں، جدوجہد ہے۔ سچائی اس سوانح عمری کا بنیادی عنصر ہے۔ بابر نے شراب ترک کر دی‘ لیکن معجون سے آخری وقت تک لطف اندوز ہوتا رہا۔ معجون، افیم یا بھنگ سے بنایا گیا مرکب تھا جسے پیس کر خوشبو دار دودھ میں ملایا جاتا تھا۔ بابر‘ ابراہیم لودھی اور رانا سانگھا کے مقابلے میں امور حرب سے زیادہ آشنا تھا۔ وہ انسانی نفسیات کو خوب جانتا تھا۔ کنواحہ کی جنگ سے پہلے اس کا سپاہیوں سے پُر جوش خطاب اس امر کی واضح دلیل ہے۔ وہ واقعی اسم با مسمیٰ یعنی شیر تھا۔ بابر کی وصیت کے مطابق اُسے کابل میں دفن کیا گیا۔